Tuesday, February 26, 2013

بند دروازے



سیف: ماما حسین پھر میرے کمرے میں بغیر اجازت کے آیا  میں: بھول گیا ہو گا، کوئی بات نہیں.
 سیف: مگر آپ اسے منع کریں. آپ نے کہا ہے کہ سب   ایک دوسرے کے کمرے میں اجازت لے کر جائیں پھر وہ کیوں بھولا؟
میں: بیٹا بھول جاتے ہیں لوگ. پھر رمائنڈ کروا دوں گی. اب دفع کرو، اگنور کر دو.
سیف: مگر میں چاہتا ہوں کہ وہ کبھی بھی میری اجازت کے بغیر میرے کمرے میں نہ آۓ، never ever!

غور کیجیے کہ یہ گفتگو کس جانب جا رہی ہے. سیف حسین سے تین سال چھوٹا ہے، حسین چھیڑتا ہے اور سیف 'چھڑتا' ہے اور میرا کام بیچ بچاؤ کروانا ہے. جسکا ایک طریقه دونوں کو دو دو لپڑ لگا کر کمرے میں بھیج دینا بھی ہے.
گو کہ مجھے غصّہ آ چکا ہے لیکن چونکہ رات کے ساڑھے نو بجے ہیں اسلیے میں ضبط کو بہتر سمجھتے ہوے، حسین کو بلا کر تنبیہ کرتی ہوں اور سیف فتحمندانہ طریقے سے 'اپنے کمرے' میں واپس چلا جاتا ہے
(الو کے پٹھے سے کوئی پوچھے کہ اپنی ماں کو نہیں جانتا؟ زیادہ بڑبڑ کی تو گیراج میں بستر لگا دوں گی، پھر رونا اپنے کمرے کو)
خیر... اب آئیے صبح کی طرف
سیف سکول کے لیا تیار ہو کر دندناتا ہوا میرے کمرے میں داخل ہوا. بولنا اسنے ٢٠ گز پہلے سے شروع کر دیا تھا.

 سیف: ماما میں تیار ہو کر تھوڑی دیر ٹی وی دیکھ......
 میں: یہیں رک جائیے. کیا آپ نے میرے کمرے میں دخل ہوں ے سے پہلے اجازت لی؟
سیف: اوہ، میں بھول گیا...(وہیں کھڑے کھڑے پوچھتا ہے) ماما میں اندر آجاؤں؟
میں: نہیں، اور میں چاہتی ہوں کہ آپ کبھی بھی میرے کمرے میں بغیر پوچھے نہ آئیں ..... never ever!

ظاہر ہے کہ اس مکالمے کے بعد ناشتہ سوجے ہوۓ منہ کے ساتھ کیا گیا اور ہم گاڑی میں سوار سکول چل دیے. کوئی دس منٹ کا رستہ ہے اور حسین  ہمارے ساتھ نہیں ہوتے کیونکہ وہ دوست کے ساتھ سکول جاتے ہیں.     

میں: پھر کیسا لگا آپکو کمرے سے نکال دیا جانا؟
سیف: ہنہ!
میں: کچھ زیادہ نہیں کر دیا میں نے؟
سیف: ہنہ... بہت زیادہ... میں تو بات پوچھنے آیا تھا.
 میں: مگر بغیر اجازت کے؟
 سیف: تو میں بھول گیا تھا.
میں: جناب، تو سبق نمبر ایک کہ بھول سب سے ہوتی ہے اسلیے پکّے اور سخت فیصلے کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہیے
سیف: ہوں..
(نوٹ کیجیے کہ یہ 'ہنہ' نہیں بلکہ 'ہوں' تھی)
میں: تو پھر بتایا نہیں کہ کیسا لگا؟
سیف: بہت برا!
میں: تو سبق نمبر دو، کہ برا بھی سب کو لگ سکتا ہے اس لئے جو خود کو برا لگے اسے دوسروں کے لئے لئے بھی برا ہی سمجھیں
سیف: سوری!

ابھی پانچ چھ منٹ باقی تھے تو میں نے سوچا کچھ مزید لیکچر دے لوں. 

میں: ایسا کیا ہو جاتا ہے حسین کے کمرے میں آنے سے جو آپ اتنے شدید ناراض ہو جاتے ہو؟ کیا کرتا ہے وہ؟
  (جیسے مجھے نہیں پتہ).
سیف: وہ مجھے 'ٹیز' کرتا ہے. ہر وقت اور بہت زیادہ.
میں: تو آپ خود کو 'پروٹیکٹ' کرنے کے لئے دروازہ بند کرتے ہو؟
سیف: ہوں
 میں: مگر دروازہ بند کرنے سے تو حسین بدلے گا نہیں البتہ آپ کا کنکشن سب سے ختم ہو جاۓ گا.
 سیف: ہوں.
میں: اچھا بتاؤ پروٹیکشن کی ضرورت کسے ہوتی ہے؟
سیف: جو "week" ہو.
میں: تو کیا آپ "week" ہو؟
سیف: نہیں.
میں: سمجھو کہ ایک آدمی ایک دیوار کو ٹھڈے مار رہا ہے تو اسمیں دیوار کا کیا بگڑے گا؟
سیف: کچھ نہیں.
میں: اور آدمی کا؟
سیف: اسے چوٹ لگے گی.
میں: اور سمجھو کہ وہ اپنی درد کو چھپا کر کافی دیر تک ٹھڈے مارے اور باز نہ آۓ تو پھر وہ لوگوں کو کیسا لگے گا؟
سیف: سٹپڈ.
میں: کیا آپ دیوار جتنے 'ٹف' ہونے کی کوشش کر سکتے ہو تاکہ حسین 'سٹپڈ' لگ سکے کیونکہ میرا خیال ہے وہ 'سٹپڈ' .لگنا پسند نہیں کرے گا اور باز آ جاۓ گا.
سیف: میں ٹرائی کروں گا.
میں: ایک اور طریقه بھی ہے. دوستی کا ...
(یہاں  میری ٹائمنگ خراب تھی سو سیف کو یہ صلاح پسند نہیں آئی).

سلسلہ یہ ہے کہ روزمرہ واقعات انسان کو کچھ نہ کچھ سکھاتے رہتے ہیں. سیف کو سمجھاتے سمجھاتے مجھے یہ خیال آیا کہ مسلمانوں کے ساتھ بھی آجکل یہی ہو رہا ہے. مسلمانان کا ایک کافی بڑا گروہ اسلام کو 'پروٹیکٹ' کرنے میں تو دل و جان سے مشغول ہے لیکن 'ٹف' بننے یا دوستی کا پیغام دینے کے لئے کوئی کچھ نہیں کر رہا. نتیجہ یہ ہے کہ دروازے بند ہو رہے ہیں اور دوست کم ہو رہے ہیں. سادہ سی بات ہے. 'ٹف' ہو نے کے لئے اپنی جان پر کام کرنا پڑتا ہے اور دوست بننے کے لئے اپنے ذہن پر. دروازہ بند کرنے سے تو اپنی ذات دنیا سے علیحدہ ہو جاتی ہے اور پھر صرف تنہائی... اور تنہائی سے بڑا زہر قاتل کوئی نہیں!

No comments:

Post a Comment

What you write is what you think and what you think is who you are.