Tuesday, February 26, 2013

انسانیت اور کلچر- مذھب اور سیاست


سنہ انیس سو ستتر کے نومبر میں 

میں چودہ سال کی تھی. پاکستان 

ریڈیو سٹیشن لاہور کے زیر انتظام 

علامہ محمد اقبال کا صد سالہ جشن 

ولادت منانے کا اہتمام تھا. لاہور بھر 

کے سکولوں کو ملّی نغمہ اور نعت 

گوئی کے مقابلہ میں شمولیت کا 

دعوت نامہ بھیجا گیا. ہمارے سکول 

میں ایسے انتظامات اردو کی ہیڈ آف 

دی ڈپارٹمنٹ مسز ارشد کرتی تھیں. 

اعلان کر دیا گیا کہ آڈیشن بریک میں 

ٹک شاپ کے پیچھے جس درخت کے نیچے ٹیچرز چاۓ پیتی 

ہیں وہاں ہوں گے. (اسوقت یہ علم نہیں تھا کہ اوپن ائیر میں 

صوتی اثرات پٹ جاتے ہیں). لڑکیوں کی بھیڑ تھی. مجھ میں 

لیڈری اور غنڈہ گردی دونوں کے جراثیم تھے تو سب نے پہلے 

جانے دیا. آج بھی یاد ہے کہ میں نے ناصر کاظمی کی "دیار 

دل کی رات میں، چراغ سا جلا گیا" گائی. میرے بعد مریم نے 

"تم سنگ نیناں لاگے" سنایا، لبنى ابراہیم نے "اے باد 
د صبا 

کملی والے سے" سنائی، اور پھر سائرہ نسیم نے "اونجا کیہ 

کیہ پشت دیوار کیہ کیہ" گایا. اور یہ ہے اصل بات. 


شاید آج آپ میں سے کوئی نہیں جانتا کہ سائرہ نے جو گایا وہ 

کیا بلا ہے. لیکن ان دنوں سب جانتے تھے... گانا سب پاپ 

سننے والوں کی زبان پر تھا. ضیاءمحئ الدين شو پر خانم 

گوگوش اپنے فن کا مظاہرہ کر چکی تھیں اور ٹيليوژن پر 

"نغمہ" کے طور پر اکثر چلتا تھا. مگر اس زمانے میں 

توگوگوش اور امّ کلثوم اکثر سننے اور دیکھنے میں آتی تھیں. 

ایران سے گوگوش کے ساتھ ساتھ سنتور نواز اساتذہ، مصر سے 

رقّاص، روس سے سرکس  اور چین سے بازیگروں کے طائفے 

ہر وقت آتے تھے. لاہور ثقافت کا گڑھ تھا اور ثقافت کا تبادلہ 

انسانی بنیادوں پر ہوتا تھا. یعنی انسان اپنا ہنر انسانوں کے 

سامنے پیش کرتے تھے اور انسانوں کی داد یا تنقید ہی ان 

ہنرمندوں کو کامیاب یا ناکام کرتی تھی. اور اس خالصتاً انسانی 

رابطے سے پیدا ہونے والی پہچان تمام دنیا میں تسلیم کی جاتی 

تھی.


 ایک عالم جانتا تھا کہ چینی بازیگروں کے پاۓ کے بازیگر 

دنیا میں نہیں، روسی سرکس کے مقابلے کا سرکس دنیا میں 

نہیں، گوگوش ایرانی 'پاپ' کی بے تاج شہزادی ہے اور امّ 

کلثوم کی طاقتور آواز پہاڑ، صحراء اور سمندر سب کو چیرتی 

ہوئی نکل جاتی ہے. پھر ہمارے اپنے جگمگاتے ہیرے تھے. 

طفیل نیازی زندہ تھے. روشن آراء حیات تھیں، نور جہاں کا 

طوطی بولتا تھا، نسیم بیگم، منیر حسین، زبیدہ خانم، مسعود رانا، 

رونا لیلیٰ... غرض کس کس کا نام یاد کریں.

 اور یہ تو صرف موسیقی اور گائکی ہے. اداکاری، شاعری، 

کھیل اور دانشوری... لئیق احمد کے تجزیے، قریش پور کے 

سوالات، عبیداللہ علیم اور افتخار عارف کے جوابات، فیض 

صاحب کی بیٹھکیں، اعجاز بٹالوی کی صحبتیں (قران کو کتاب 

کی طرح پڑھنے کی پٹی بھی بٹالوی صاحب نے پڑھائی) اور 

ضیاء محئ الدين کا 'کرذمہ' (غور کیجیے کہ اس زمانے میں 

'ہارٹ تھراب' کا کانسپٹ کتنا مختلف تھا. شکل کی بجاۓ 

لڑکیاں ضیا صاحب کی عقل کے پیچھے بھاگتی تھیں. 


پھر یوں ہوا کہ پاکستان اور ایران میں اسلام آ گیا. روس میں 

'کیپٹلزم' آگیا، مصر میں کرپشن آ گئی، اور چین ان آفات کی 

تاب نہ لاتے ہوۓ اپنے گھر کے اندر چھپ کر بیٹھ گیا. 

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا.

No comments:

Post a Comment

What you write is what you think and what you think is who you are.