Thursday, March 14, 2013

کوئٹہ کے گندے بچے


بعض خبریں ایسی ہوتی ہیں جن پر انگریزی میں لکھتے ہوۓ شرم آتی ہے. لیکن چونکہ چپ بھی نہیں رہا جاسکتا اور پاکستان کا پردہ رکھنا بھی فرض ہے تو بہتر یہی ہے کہ گھر کی بات گھر کی زبان میں کی جاۓ تاکہ غیر کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے.

خبر کچھ یوں ہے کہ کوئٹہ پولیس نے گیارہ بچوں کا گروہ حراست میں لیا جو دہشت گردی کے مختلف واقعات میں ملوث ہے. کپیٹل پولیس کے زبیر محمود کے مطابق تمام بچوں کی عمریں  گیارہ اور اٹھارہ سال کے درمیان ہیں اور تمام کا تعلق انتہائی غربت زدہ گھرانوں سے ہے. انہیں دو سے پانچ ہزار روپے معاوضے کے عوض جاۓ وقوعہ پر دھماکہ خیز مواد پہنچانے کے لئے استمعال کیا جاتا تھا. بچوں کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ جو 'پیکٹ' انہیں دیۓ جا رہے ہیں وہ درحقیقت 'بم' ہیں.

اب آئیے چند حقایق پر:
·        پاکستان میں مئی، دوہزاربارہ (May, 2012)  کے اعداد کے مطابق سرکاری طور پر مقرر کردہ کم از کم تنخواہ آٹھ ہزار روپے ہے.
·        اس قانون کا اطلاق ان تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں پر ہوتا ہے جو پچاس یا اس سے زائد افراد کو ملازمت فراہم کرتے ہیں.
·        ملک کی ستر فیصد (%70) آبادی نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہے یعنی ستر فیصد افراد آٹھ ہزار یا اس سے کم آمدن پر گزر اوقات کرتے ہیں.

·        پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا غیر تعلیم یافتہ ملک ہے.
·        ملک میں لگ بھگ تیس ہزار (30,000) سکول صرف سرکاری فائلوں میں واقع ہیں.
·        بارہ ہزار سات سو چورانوے (12,794) سکول کھلے آسمان تلے لگتے ہیں.
·        چونتیس ہزار تین سو چھیاسی (34,386) سکولوں میں بجلی نہیں ہے.
·        تئیس ہزار تین سو انچاس (23,349) میں بیت الخلاء نہیں ہے.
·        پچیس ہزار دو سو سینتیس (25,237) میں پانی کا نلکا نہیں ہے.

Quetta March 13, 2013.—AFP Photo 

ان اعداد وشمار کی موجودگی میں کم از کم اتنا تو ہوتا کہ کوئٹہ کے گیارہ گندے بچوں کو پڑی ہتھکڑیاں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس کے شروع اور آخر میں گیارہ گیارہ مرتبہ چھنکائی جاتیں. بلکل اسی طرح جس طرح وظیفے، چلّے اور میلاد کے شروع اور آخر میں درود پڑھا جاتا ہے. 


خبر کہتی ہے کہ یہ بچے یونائٹڈ بلوچ آرمی کے ہاتھوں استمعال ہوتے رہے. میں کہتی ہوں کہ ہو سکتا ہے ہندوستان اور امریکہ کے ہاتھوں بھی استمعال ہوۓ ہوں. پاکستانی طالبان اور لشکر جھنگوی نے بھی انہیں پیکٹ اور دو دو ہزار پکڑاۓ ہوں. کیا فرق پڑتا ہے. حقیقت تو صرف یہ ہے کہ پاکستان میں بچوں کو دو ہزار دے کر بم بھجوایا، رکھوایا اور چلوایا جا سکتا ہے.


شاید اس لئے کہ جن سکولوں میں ان بچوں نے روزانہ پڑھنے جانا تھا وہ سکول فائلوں میں اور فائلیں افسروں کی الماریوں میں بند ہیں.

یا شاید اس لئے کہ جن ماں باپ نے ان پر دو ہزار خرچ کرنے تھے انکی جیب اسکی متحمل نہیں ہو سکتی.


یا پھر اس لئے کہ یہ گیارہ کے گیارہ بہت گندے بچے ہیں، سب قصور انہی کا ہے اور اسی لئے ان سب کو ہتھکڑی پہنا کر لائن میں کھڑا کیا جانا چاہیے تاکہ آئندہ کبھی ایسا نہ کریں.  

No comments:

Post a Comment

What you write is what you think and what you think is who you are.