Wednesday, October 14, 2015

دو سال پرانا ایک خط








Sep 11, 2013 

عثمان بھائی آداب،

email address  دینے کا بہت بہت شکریہ. گو مجھے اندیشہ ہے کہ میرے ساتھ  مذھب اور پیغمبر کے موضوع پر گفتگو لا حاصل ہو گی. ذاتی طور پر میں اس بحث سے کم و بیش بیس سال قبل آزاد ہو چکی ہوں. بیس سال قبل میں نے پہلی مرتبہ قران کا ترجمہ پڑھا. مشکل کام ہے کیونکہ ربط نہیں ہے. آج بھی حیرت زدہ ہوں کہ سورۂ النساء کے بعد بھی کیوں پڑھتی چلی گئی؟  پھر تفسیر و تفہیم پر مغز ماری کی اور اللہ بھلا کرے مولانا مودودی کا کہ سورۂ البقرۂ کی تفہیم پڑھنے کے بعد مزید سمجھنے کی ضرورت نہ رہی، یعنی یہ امر مکمل واضح ہو گیا کہ یہ کتاب اور اس سے پہلے آنے والی کتب، (جنکا تعلق ایک مخصوص شجرہ نسل سے ہے) تمام تر کا اہتمام سیاسی و سماجی قوت کے استحکام کی بنیادوں پر کیا گیا. ترجمہ اور تفسیر و تفہیم سے قلب و ذہن پر جو بوجھ پڑا اسے جھٹکنے کے لیۓ ضروری تھا کہ معروضی حقائق کی کھوج کی جاۓ سو تاریخ پڑھنی شروع کی. اور اب حالت یہ ہے کہ روحانیت کے حوالے سے مذاھب اور پیغمبران مشترکہ طور پر بےمعنی اور لایعنی ہو چکے ہیں.

 علم میں قدرت نے بہت تکلیف رکھی ہے. دل بار بار کڑھتا ہے. لوگوں کی لاعلمی پہ اور اسکی بدولت بےبسی پہ. پہلے غصہ کرتی تھی لیکن اب نہیں کرتی. مذھب کے پیروکاروں میں ننانوے فیصد وہ ہیں جو پیدائشی مسلمان، ہندو، یہودی اور عیسائی ہیں. سوچتی ہوں اگر یہ سب ان مذاھب کے ساتھ جڑی کتابیں پڑھ کر مذھب چنتے تو نہ مسلمان ہوتے، نہ یہودی اور نہ عیسائی. خاص کر عیسایت تو کب کی طاق پہ دھری جا چکی ہوتی. اور ہندومت بھی. اسلام اور یہودیت کا مسئلہ مختلف ہے کیونکہ ان پر آج بھی مذہبی سیاستدانوں کا راج ہے.

سو یہ ہے صورتحال. تاریخ چاہے ایک طرف سے کھولیں یا دوسری طرف سے، مذھب، پیغمبر اور الہامی کتب کا پول بہت سادگی سے اور پورا کا پورا کھلتا ہے.

میں تو کہتی ہوں دفع کریں عثمان بھائی، اس بحث میں کچھ نہیں رکھا
پچاس سال عمر ہونے کو آئی ہے. اب تو بس یہ افسوس رہ گیا ہے کہ انسانی ذہن کی انتہائی خوبصورت ایجاد یعنی خدا کے  تصور کو اپنی اپنی دکان چمکانے کے لئے کس کس طرح چیرا پھاڑا جا رہا ہے. وہ ایک خیال جو قبل از تاریخ اور قبل از تھذیب، غاروں میں رہنے والے انسان کی ذہنی نفاست کی پہلی دلیل تھا اور اسکے اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت تھا، اب اسی انسان سے چھن چکا ہے اور اس سے جڑی تمام تر تجریدیت حلال، حرام، گناہ، ثواب، جنت، جہنم وغیرہ کا روپ دھار چکی ہے. اب تو لازم ہے کہ اس خیال سے ہم آہنگی کے لئے پہلے کسی پیغمبر اور اسکے ایجاد کردہ مذھب پر ایمان لایا جاۓ اور اپنی شناخت کے حوالوں میں اسکا حلفیہ بیان ہو.  پتہ نہیں پڑہے لکھے مسلمان یہ سوال کب اٹھائیں گے کہ عثمان نے علی کا قران کیوں قبول نہیں کیا؟ زید ابن ثابت کی یاداشت سے حفصہ، ام سلمیٰ اور عائشہ کے ہونٹوں تک آتے آتے بات کیا سے کیا ہوئی اور پھر  تین سو سال پر محیط اعراب، تشکیل و تکمیل کے عمل کی دوران کتنے الفاظ  "اُمّہ" سے "اِمّہ" ہو کر رہ گئے؟ 
بیگم کی خدمت میں سلام
ناچیز
صالحہ.

No comments:

Post a Comment

What you write is what you think and what you think is who you are.