مئی کا مہینہ دو چیزوں کی نظر ہوا. ایک پاکستانی انتخابات اور دوسرے قوم کی آراء. انتخابات کی ہلچل ١٢ مئی کو ختم ہوئی تو دھاندلی کا شور بلند ہوا اور اتنا بلند ہوا کہ زوال آتے آتے چند ہفتے لگ گۓ. اب حلف برداریاں ہو رہی ہیں. ان تمام حالات، واقعات اور رویوں کے دوران ایک چیز جو ہمہ وقت جاری، موجود اور دستیاب رہی وہ تھی 'رائے عامہ'.
ٹیلیوژن پر مکالمہ، انٹرنیٹ پر مکالمہ، فیس بک پر مکالمہ، ٹوٹر پر مکالمہ اور پھر ان مکلاموں پر عوامالناس کی آراء. ہم 'ڈش کلچر' کو بھلے کوسیں مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام کواپنے حقوق سے آشنا کروانے میں جو کردار ذرائع ابلاغ نے ادا کیا ہے وہ اس ملک کے تعلیمی ادارے پچھلے چھیاسٹھ سال میں نہ کر سکے. لیکن اسکے ساتھ ساتھ ان مکلاموں اور آراء نے جہاں بہت سے جیّد سیاستدانوں کی سیاست اور دانشوروں کی دانش کے پول کھولے وہاں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بسنے والے متعدد افراد کی ریکارڈ توڑ ناشائستگی اور ذہنی پستی پر پڑے تمام پردے بھی اٹھا دیۓ. سوشل میڈیا پر بکھرے مغلظات سے لبریز انگنت "کمنٹس" اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ مذہبی بالادستی اور سماجی اقدار کی عمدگی کا دعوا کرنے والی قوم تعلیم اور تھذیب کے اعتبار سے کسقدر مفلس و نادار ہے.
اسلامی جمہوریہ پاکستان جس میں رہنے والے ستانوے فیصد پاکستانی مسلمان ہیں اور اپنے مذھب کے حوالے سے عورت کی عزت اور اس سے جڑے رشتوں کے مقدس اور مقدم ہونے کا ذکر کرتے نہیں تھکتے. پاکستانی، جنکی قومی زبان میں تکلف اور بے تکلفی کا فرق 'آپ' اور 'تم' سے لے کر 'جی' اور 'ہاں' تک بار بار بتایا جاتا ہے تاکہ تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ چھُوٹے. یہی پاکستانی جب اظہار راۓ کرنے پر آۓ تو ماں پلک جھپکتے میں مادر ہوئی اور پھر مادراور بہن دونوں، مباشرت کے سابقے بن کر رہ گئے. جہاں اس سے کام نہ چلا وہاں ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے متعلق نہایت تفصیل سے شہوانی مشورے دیے گئے....
لیکن مجھے اسپر کوئی رفاہی تقریر نہیں کرنی. مجھے تو صرف دو نتیجے اور دو باتیں آپ تک پہنچانی ہیں. اور آخر میں ایک چھوٹا سا سوال کرنا ہے.
نتیجہ نمبر ١. استمعال ہونے والی ننانوے فیصد مغلظات کا شخصی استعارہ عورت ہے.
نتیجہ نمبر ٢. استمعال کرنے والوں میں ننانوے فیصد سے زائد مرد ہیں.
بات نمبر ١. بند کمرے میں اکیلے یا یار دوستوں کی صحبت میں بیٹھ کر اور ایک فرضی نام کے پیچھے چھپ کر کمپیوٹر پر ماں بہن کی گلیاں لکھنا، جسمانی لحاظ سے خود کو توپ اور مخالف کو پانی کی پستول بتانا اور اسکے برتے پر خود کو ناقابل شکست سمجھنا کمزوری، جہالت، احساس کمتری اور کمینگی کی ٹھوس علامات ہیں.
بات نمبر ٢. اس مظاہرے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مغلظات بکنے والی عوام جہالت اور اخلاقی دیوالییہ پن میں کسی طرح بھی ڈنمارک کے کارٹونسٹ اور امریکی فلمساز سے کمتر نہیں. جسطرح وہ اپنے سے مختلف عقیدہ رکھنے والوں کے جذبات کو مجروح کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اسی طرح اپنے مخالفین کی تذلیل میں انسانیت اور لحاظ بیچ کھانے اور شرم کو گھول کر پی جانے میں پاکستانی عوام کا کوئی ہم پلّہ نہیں.
سوال: ان حقائق کی موجودگی میں کیا یہ بہتر نہ ہو گا مذہبی، تھذیبی اور معاشرتی سطح پر موجود اپنے احساس برتری کو پس پشت ڈال دیا جاۓ اور اپنے دینی اور دنیاوی رویوں کی فضیلت کا ڈھندھوڑا پیٹنے سے گریز کیا جاۓ ؟
No comments:
Post a Comment
What you write is what you think and what you think is who you are.