ضیاءمحی الدین کی راۓ میں
ن م راشد کے "قدم اپنی مٹی میں مضبوطی سے جمے ہوۓ تھے". ضیاء کے مطابق
اس معاملے میں راشد صاحب کا کہنا تھا کہ "صرف قدم ہی مٹی میں جمنے چاہئیں، سر
اور منہ اور ہاتھ نہیں".
جس گفتگو کا یہاں حوالہ
ہے اپنی اسی گفتگو کی ابتداء میں ضیاء، راشد صاحب کو، ایک ہی سانس میں وفادار بھی
کہتے ہیں اورباغی بھی. اور جب میرے جیسا شخص ان حوالاجات کو الٹ پلٹ کر راشد کی
شاعری میں ڈھونڈتا ہے تو ایک ایک لفظ کا ادراک رلاتا بھی ہے اور رونگٹے بھی کھڑے
کرتا ہے. رونے اور رونگٹے کھڑے ہونے کا سبب ایک ہی ہے،
اور وہ ہے خوف. خوف اس بات کا کہ راشد کے انتقال کو چالیس برس ہونے کو آۓ ہیں
لیکن انکے افکار آج بھی اتنے ہی سرکش اور روایات سے منحرف محسوس ہوتے ہیں جتنے کہ چالیس سال قبل. خوف اس بات کا کہ آج بھی عام آدمی ان افکار سے اتنا ہی
خائف اور دہشت زدہ ہے جتنا کہ چالیس سال قبل تھا اور خوف اس سوال سے بھی کہ
کیا واقعی ان چالیس سال میں مروجہ روایات اور ہماری سوچ سمجھ کی صلاحیت کسی قسم کے
ارتقائی عمل سے گزری ہی نہیں؟
راشد صاحب لکھتے ہیں:
کلام ہنس نہیں رہا... کلام اب پگھل رہا ہے رفتہ رفتہ
ان دلوں کی شمع کی طرح
جو جل چکے، جلا چکے ____
کلام جسکا ذکر کر رہے ہیں ہم
عجیب بات ہے کلام بھی نہیں!
مگر اسے کلام کے سوا کہیں بھی تو کیا کہیں؟
کہ اسکا اور کوئی نام بھی نہیں
ہم اس پہ کچھ فدا نہیں مگر اسے
جو رد کریں تو کیوں کریں؟
کہ یہ ہمارے جسم و جان کو پالتا رہا
ہمارے ذہن و دل کو سالہا سے ڈھلتا رہا ____
یہ اب بھی ڈھلتا ہے اور ڈھلتا رہے گا
اور ہم یہ چاہتے بھی ہیں!
اسی نظم میں آگے چل کر کہا
جاتا ہے: ہم اپنے ماضئِ قریب کو
مٹا تو دیں
___ مٹانا چاہتے بھی ہیں مگر ___
یہ دیکھتے ہو تم
خفیف سی صدا اٹھی، وہ ہانپنے لگا
وہ خوف ہانکنے لگا ...
راشد صاحب کو اس وقت کے
علماء نے قابل گردن زدنی کیوں نہیں ٹھہرایا، حاکم وقت نے انہیں زنداں میں کیوں
نہیں پھنکوایا اور مشائخ نے انپر کفر کا فتویٰ کیوں نہیں لگایا؟ یہ تمام سوال اب بیکار
ہیں. مگر یہ سوال کہ راشد صاحب کی شاعری ہمارے ذہنی، ثقافتی اور سماجی ارتقاء کی
موجب کیونکر نہ ہو سکی، ابھی بھی بامعنی ہے. شائد اسلیے کہ یہ شاعری سمجھنے کے لئے
پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے اور ہمارے یہاں اس کا رواج نہیں. یہ شاعری ایسی بھی نہیں
کہ خط کی طرح کوئی پڑھ دے اور سننے والا
سمجھ کر جھوم اٹھے.
لیکن فیض صاحب کی شاعری تو ایسی ہے. اور فراز کی بھی.
لیکن فیض صاحب کی شاعری تو ایسی ہے. اور فراز کی بھی.
جب فیض
کہتے ہیں کہ:
"ہمیں تمہی بندگانِ
بےبس، بشیر بھی ہیں نذیر بھی ہیں" تو وہ بغاوت پر اکسا رہے ہیں.
جب فراز کہتے ہیں کہ:
"خداۓ برتر
مری محبت
تری محبت کی رفعتوں سے
عظیم تر ہے"
تو وہ انالحق کہ رہے ہیں.
اور جب سائیں اختر لاہوری کہتے ہیں کہ:
ٹولی کوئی زن
دی لاش اک فٹ پاتھ تے دھر گئی
عزت لٹّی جان اپنی دا جرمانہ او بھر گئی
جیوندی تاں قاضی آکھدہ "جھوٹھی سی سو ہر گئی"ِ
چنگا ہویا ادھی گواہی آپو آپ ای مر گئی!
تو وہ طنز کر رہے ہیں.
راشد یا فیض کی بغاوت،
فراز کے انالحق اور سائیں اختر کے طنز میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے سچائی.
زمانے کی سچائیاں. معروضی
حقائق. روز و شب کے معرکے اور شکست. گو یہ درست ہے کہ ہر شخص
کی سچائی دوسرے سے مختلف ہوتی ہے لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ انسان کی بنیادی ضروریات
بھی ایک سچائی ہیں اور جب یہ ضروریات پوری نہیں ہوتیں تو ایک فرد کی شکست پورے
معاشرے اور انسانیت کی شکست بن جاتی ہے.
راشد صاحب کا واویلہ
معاشرتی فرسودگی کے بارے میں ہے، تو فیض صاحب کا انسانی بیکسی کے بارے میں. فراز اپنے
زوربازو کی پذیرائی اور احترام کا مطالبہ کرتے ہیں تو سائیں اختر عورت کی آدھی
حیثیت کو ناقابلِ قبول تصور کرتے ہیں. مگر کسی نامعلوم وجہ کی بنا پر سننے اور
سمجھنے والے بت کی طرح ساکت، جامد، اور خاموش ہیں.
تیس بتیس سال قبل ہم نے ارتقاء کی اہمیت اس مثال سے سیکھی کہ ارتقاء میں تحریک ہے اور زندگی متحرک ہے جبکہ جمود میں فنا ہے اور موت جامد
ہے. جوہڑ اور بہتے دریا کا فرق، کنویں کے مینڈک اور کھارے پانی کی مچھلی کا فرق، تعلیم
اور جہالت کا فرق. مگر ٹھہریے.....
تعلیم کا مطلب تو الف
اناراور بے بکری ہے. میٹرک، ایف اے، بی اے اور ایم اے ہے. تعلیم کا مطلب آگاہی تو
نہیں. اٹھنا، جاگنا، باخبر ہونا. ہشیار،
کمربستہ اور ہوشمند ہونا تو نہیں. تو پھر یہ جہالت کی متضاد کیسے؟. جہالت کا ترجمہ
ہے 'بے خبری' جسکا متضاد بنتا ہے 'آگاہی'. سو ہمیں سیکھنا یہ چاہیے تھا کہ جہالت
اور آگاہی کا فرق ویسے ہی ہے جیسے جوہڑ اور بہتے پانی کا یا جیسے زندگی اور موت
کا. یہ سیکھنا بہت ضروری تھا کیونکہ خدا گواہ ہے کہ سنہ ٢٠١٣ میں بھی ایسے ایسے اعلٰی
تعلیم یافتہ افراد کا سامنا ہوا ہے (اور ہوتا چلا جا رہا ہے) جنہیں آگاہی،
ہوشمندی، باخبری اورکمربستگی سے دور کا بھی واسطہ نہیں.
زمانے سے آگاہ ہونے کے لئے
اپنی ذات سے آگاہ ہونا ضروری ہے. راشد صاحب 'گمان کا ممکن' میں 'خود سے وصال' کے بارے میں کہتے ہیں:
میں اس تعاقب میں کتنی گلیوں سے،
کتنے چوکوں سے،
کتنے گونگے مجسموں سے گزر گیا
ہوں.....
میں اس تعاقب میں کتنے آغاز کتنے
انجام گن چکا ہوں___
اب اس تعاقب میں کوئی در ہے نہ
کوئی آتا ہوا زمانہ
ہر ایک منزل جو رہ گئی ہے،
فقط گزرتا ہوا فسانہ
تمام رستے، تمام بوجھے سوال، بے
وزن ہو چکے ہیں
جواب، تاریخ روپ دھارے
بس اپنی تکرار کر رہے ہیں____
جواب ہم ہیں____ جواب ہم ہیں_____
آٹھ صفحوں پر مشتمل اس
نظم کا یہ حصّہ مذکورہ بالأ 'تعلیم یافتہ' افراد پر مشتمل ڈسفنکشنل معاشرے کی سادہ
سی تصویر ہے. تازہ خیالات کا فقدان، تعمیری رحجانات کی عدم موجودگی اور گزشتہ کل
پہ انحصار ان افراد کو دائروں میں گھما رہا ہے. ماضی کے مزاروں کو اپنی ذات کا
آئنہ کہنا انہیں اسقدر راس آیا ہے کہ نہ تو سماجی بلوغت حاصل ہو سکی ہے اور نہ ہی عالمی
سطح پر جاری بالیدگی کے عمل میں شمولیت حاصل ہے. معروضی حقائق کی دانستہ نفی میں مشغول
ان افراد کے سر کسی بدکے ہوۓ شترمرغ کی طرح،
اپنی نام نہاد تعلیم کی ریت میں گڑے ہیں اور انکی دموں کے نیچے سے متواتر: "جواب ہم ہیں ، جواب ہم ہیں ..." کی آواز آ رہی ہے.
٢٥ مارچ ٢٠١٣ کو ریاست
ہاۓ متحدہ امریکہ کی سپریم کورٹ نے 'شادی کے حق' کے متعلق ایک اپیل سنی. اپیل ریاست
کیلیفورنیا میں پاس کیے گئے ایک قانون کے خلاف تھی جس کے تحت 'ہم جنس' افراد کی
شادی پر پابندی عائد ہوتی ہے. اس دن کی اہمیت کے حوالے سے ہم جنس پرستوں اور انسے
متفق افراد نے یکجہتی کے طور پر سرخ رنگ پر گلابی دھاریوں والی تصویر کا مختلف
طریقوں سے استمعال کیا. میں نے بھی ایک ایسی ہی تصویر فیس بک پر لگائی جو کچھ دن
تک ایک دوست کو سمجھ نہیں آئی. البتہ جب سمجھ آئی تو انکی طرف سےکمنٹس میں متعدد بار
"استغفراللہ، استغفراللہ" لکھا گیا.
میں سوچتی ہوں کیوں؟
جب
میرا ایک نشے کا عادی نوجوان عزیز اس امید پر ایک پڑھی لکھی کزن سے بیاہ دیا جاتا ہے کہ 'شادی کر دو، خود ہی ٹھیک ہو جاۓ گا" تو اس بیوقوفانہ خیال پر تو 'استغفراللہ'
نہیں کہا جاتا. جب وہی عزیز نشے میں مزید ڈوب جاتا ہے اور سب مشورہ دیتے ہیں کہ "بچے ہو
لینے دو، خود ہی ٹھیک ہو جاۓ گا" تو اس جاہلانہ خیال پر بھی 'استغفراللہ' نہیں
کہا جاتا. اور پھر جب وہ عزیز تین کمسن بچے اور ایک جوان بیوی چھوڑ کر نشے کی زیادتی کے باعث مر جاتا ہے تو اسکے جوانا مرگ پر سب روتے تو ضرور ہیں لیکن 'استغفراللہ' پھر بھی کوئی نہیں پڑھتا.
'استغفار' عربی زبان کا
لفظ ہے اور اسکی بنیاد 'غفر' ہے جسکے معنی 'ڈھانپ دینا' ہیں. استغفراللہ کے معنی ہیں 'یا اللہ ڈھانپ دے". محمد، رسول اللہ کے
بارے میں روایت ہے کہ وہ نماز ادا کرتے وقت دو سجدوں کے درمیان معمولی سا وقفہ
دیتے تھے. پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ اس دوران 'اَستَغفِرُاللہَ رَبّیِ مِن کُلّی
ذَنبٍ وَاتُبواِلَیہِ" پڑھتے ہیں. یعنی، "یا اللہ، میرے گناہوں پر پردہ
ڈال؛ میں ان سب سے توبہ کرتا ہوں".
کسقدر دلچسپ بات ہے کہ
ایک ایسی شخصیت جو گناہ سے عاری سمجھی جاتی ہے، وہی مغفرت کی دعاؤں کا منبع بھی
ہے. اور ایک اسکے نام نہاد معتقد ہیں جو ان دعاؤں کا استمعال تو کرتے ہیں لیکن ان کا مقصد اپنے
گناہوں کا اعتراف نہیں بلکہ دوسروں پر تنقید اور پڑوسی کا
بھانڈا بیچ بازار میں پھوڑنا ہوتا ہے. یہ لوگ طلاق کو حلال
مانتے ہیں جو خاندانوں کا شیرازہ بکھیر دیتی ہے اور متعلقه افراد کے ذہنوں پر دیرپا منفی نقوش ثبت کرتی ہے. لیکن ہمجنسیت کی شادی کے ذکر پر صرف اس لئے استغفراللہ پڑھتے ہیں کیونکہ انکی دانست میں یہ گناہ بھی ہے اور قدرت سے متصادم بھی.
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک شادی کا پہلا مقصد اولاد پیدا کرنا ہے.
یہ لوگ اولاد نرینہ کی
خاطر بیویوں پر بیویاں رکھتے ہیں اور لڑکیوں پہ لڑکیاں پیدا کرتے ہیں. نسل چلانے
کے لئے مہنگے سے مہنگا ڈاکٹر ڈھونڈا جاتا ہے لیکن بن ماں باپ کے بچوں کو قانونی
طور پر گود لینے سے دامن بچایا جاتا ہے. اسکے ساتھ ساتھ یہی لوگ یتیم کو دادا کی جائداد میں حصہ نہیں دیتے. نکاح کے بغیر اور زنابالجبر کے نتیجے میں ہونے والے بچوں کو 'حرام' قرار دے
کر انسے تمام حقوق چھین لیتے ہیں اور ان میں سے کسی بھی عمل پر استغفرللہ
نہیں پڑھتے.
یہی ہے 'کلام کا پگھلنا'.
یہی ہے 'جواب میں ہُوں' کی گردان. طلاق، آدھی گواہی، جائداد میں آدھا حصہ، لے پالکی
کی عدم حیثیت، نومولود کا حرام ہونا، چونکہ یہ سب 'کلام' میں درج ہیں سو انہیں
استثناء حاصل ہے خواہ عالمی اور انسانی حوالوں سے یہ کتنے ہی گھناؤنے کیوں نہ ہوں. دوسرے لفظوں میں دنیا میں
انسان کے قابل مذمت کردار پر بیشتر جگہ 'کلام' کا 'پردہ' ڈالا جاتا
ہے.
اور یہ آج بھی جاری ہے. سنہ
٢٠٠١ میں کینیڈا کے مصنف یان مارٹل نے 'لائف آف پائی' کے نام سے ایک کتاب لکھی جس
کی کہانی 'پائی' نامی ایک کم عمر لڑکے کے گرد گھومتی ہے جو سمندری طوفان سے جان
بچا کر ایک چھوٹی سی کشتی میں مہینوں ڈولنے کے بعد ساحل پر پہنچتا ہے. پائی جہازی
کمپنی کے انشورنس ایجنٹوں کو دو کہانیاں سناتا ہے. پہلی کہانی پریوں کی کہانیوں کی
طرح خوبصورت اور پراسرار ہوتی ہے جسکا اختتام پائی کی ایک 'ٹائگر' سے دوستی پر
ہوتا ہے. دوسری کہانی بتاتی ہے کہ جان بچانے کے دباؤ تلے انسان حیوان سے بدتر ہو
جاتا ہے. دونوں کہانیاں پائی کو ساحل تک پہنچاتی ہیں. ا
اس مشہور کتاب کے آخری جملے
یہ ہیں:
پائی: تو بتائیے کہ اگر واقعات
کی سچائی موجودہ حقیقت پر اثرانداز نہیں ہوتی تو پھر کونسی کہانی بہتر ہے؟ جانوروں
والی یا جانوروں کے بغیر؟
مسٹر اوکوموٹو: یہ ایک
انتہائی دلچسپ سوال ہے.
مسٹر چیبا: جانوروں والی
کہانی.
مسٹر اوکوموٹو: ہاں،
جانوروں والی کہانی ہی بہتر ہے.
پائی: شکریہ، اور اللہ کے
حوالے.
پائی کے کردار دکھاوے کے لئے خوبصورت کہانی چنتے ہیں. اس دنیا کے شترمرغ بھی اپنے دفن شدہ سروں میں خوبصورت کہانیاں گھڑ رہے ہیں. اور اس سب کے درمیان دہایوں اور ربع صدیوں کے وقفے سے پیدا ہونے والے شعرا , مصنف اور تخلیق کار بار بار اس ریاکاری اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشرتی آلودگی کا ذکر کر رہے ہیں جس میں رہتے ہوۓ انسان 'کلام' کے مصنوئی تنفس کے سہارے زندگی گزار رہا ہے. فرق صرف یہ ہے کہ کچھ کے الفاظ مشکل ہیں اور کچھ کے استاد دامن کے الفاظ کی طرح بے انتہا سادہ:
میرے دلوں ودھائیاں ہون ربّا،
بندے جتھے سن، اوتھے دے
اوتھے نیں ہن تک
No comments:
Post a Comment
What you write is what you think and what you think is who you are.